Sunday, 29 October 2017

ایک آرزو !Aik Arzoo Kalam-e-Iqbal, poetry of Allama Iqbal, 2017

 Aik Arzoo kalam-e-Iqbal, 2017

ایک آرزو 


دنيا کي محفلوں سے اکتا گيا ہوں يا رب
کيا لطف انجمن کا جب دل ہي بجھ گيا ہو

شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے ميرا
ايسا سکوت جس پر تقرير بھي فدا ہو

مرتا ہوں خامشي پر، يہ آرزو ہے ميري
دامن ميں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو

آزاد فکر سے ہوں، عزلت ميں دن گزاروں
دنيا کے غم کا دل سے کانٹا نکل گيا ہو

لذت سرود کي ہو چڑيوں کے چہچہوں ميں
چشمے کي شورشوں ميں باجا سا بج رہا ہو

گل کي کلي چٹک کر پيغام دے کسي کا
ساغر ذرا سا گويا مجھ کو جہاں نما ہو

ہو ہاتھ کا سرھانا سبزے کا ہو بچھونا
شرمائے جس سے جلوت، خلوت ميں وہ ادا ہو

مانوس اس قدر ہو صورت سے ميري بلبل
ننھے سے دل ميں اس کے کھٹکا نہ کچھ مرا ہو

صف باندھے دونوں جانب بوٹے ہرے ہرے ہوں
ندي کا صاف پاني تصوير لے رہا ہو

ندي کا صاف پاني تصوير لے رہا ہو
پاني بھي موج بن کر اٹھ اٹھ کے ديکھتا ہو

آغوش ميں زميں کي سويا ہوا ہو سبزہ
پھر پھر کے جھاڑيوں ميں پاني چمک رہا ہو

پاني کو چھو رہي ہو جھک جھک کے گل کي ٹہني
جيسے حسين کوئي آئينہ ديکھتا ہو

مہندي لگائے سورج جب شام کي دلھن کو
سرخي ليے سنہري ہر پھول کي قبا ہو

راتوں کو چلنے والے رہ جائيں تھک کے جس دم
اميد ان کي ميرا ٹوٹا ہوا ديا ہو

بجلي چمک کے ان کو کٹيا مري دکھا دے
جب آسماں پہ ہر سو بادل گھرا ہوا ہو

پچھلے پہر کي کوئل، وہ صبح کي مؤذن
ميں اس کا ہم نوا ہوں، وہ ميري ہم نوا ہو

No comments:

Post a Comment